اللہ سب سے بڑا طاقت والا ہے۔ ہم لوگ گفتگو میں یہ الفاظ استعمال کرتے تاکہ دوسرے پر اپنے علمیت کا رعب پڑے کہ یہ شخص پڑھا لکھا ہے اور اسلامی ذہن رکھتا ہے لیکن جب تھوڑی سی طاقت اللہ پاک اس شخص کو عنایت فرماتے ہیں یا اقتدار ملتا ہے یا دولت ملتی ہے وہ سب کچھ بھول جاتا ہے اور کہتا ہے وہ طاقت والا ہے اور طاقت کے نشے میں بھول جاتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا اور ظلم کرتا ہی چلا جاتا ہے۔ ہمارے علاقے میں ایک صاحب رہتے تھے‘ غریب تھے۔ اللہ پاک نے اپنی رحمت کے ذریعے امیر بنادیا۔ دولت گھر میںآنے لگی اور ان کی دوستی پولیس ملازمین کے ساتھ شروع ہوگئی کیونکہ اکثر پولیس ملازمین کے ہاں حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں ہوتی اور دوستی بھی اپنا رنگ دکھاتی ہے ان کے ہاں پولیس ملازمین کا آنا جانا زیادہ شروع ہوگیا اور تھانہ کے فیصلے ان کے پاس ہونے لگے۔ پولیس آفیسران کو دعوت دینے میں فخر محسوس کرتے تھے اور جو بھی ایس ایچ او نیا آتا سب سے پہلے ان کو ملنے کیلئے آتا تھا اور پولیس کی زبان میں پولیس کے ساتھ زیادہ ”تعاون“ کرنے والے تھے۔
گھر میں دولت کی فراوانی ہوگئی اور شہر کی بااثر شخصیات میں شمار ہونے لگے اور ناجائز قبضے کرنا‘ ناجائز گرفتار کرادینا‘ ناجائز رہا کرادینا روز کا معمول تھا۔ یہ قانون قدرت ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو اللہ پاک کا نظام عدل آن ہوجاتا ہے۔ ان صاحب کے بچوں نے سب سے پہلے جانے سے انکار کردیا چونکہ دولت کی ریل پیل تھی اس لیے ان صاحب نے کہا اچھا کوئی بات نہیں کہ اتنی رقم اکٹھی ہوگئی ہے۔ اس لیے تعلیم کی ضرورت نہیں ہے اس طرح ان کا کوئی بیٹا بھی تعلیم حاصل نہیں کرسکا۔ آخری عمر میں ان صاحب نے ایک پلاٹ پر ناجائز قبضہ کیا۔ مالک بیرون ملک رہتا تھا اس نے اپنی زندگی کی جمع پونجی اکٹھی کرکے پلاٹ خریدا تھا۔ اس کی جو جب علم ہوا کہ پلاٹ پر ناجائز قبضہ ہوگیا ہے تو فوراً پاکستان آیا۔ مگر اس کی چھٹی مختصر تھی۔ الٹا مالک کو دھمکیاں دیں کہ پلاٹ چھوڑ دو ورنہ ناجائز مقدمہ میں گرفتار کراکر اندر کرادوں گا۔ اصل مالک روتا ہوا واپس چلا گیا اور وہ صاحب اس پلاٹ میں سونے لگے۔ بالکل صحت مند تھے۔ ان کی عادت تھی کہ صبح سات بجے پلاٹ سے گھر واپس آجاتے تھے۔ 9بجے تک واپس نہ آئے تو گھر والوں کو تشویش ہوئی۔ پلاٹ پر گئے دروازہ اندر سے بند تھا۔ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے۔ دیکھا تو وہ صاحب چارپائی پر مرے پڑے ہیں ٹانگیں اس انداز میں تھیں کہ جیسے تڑپتے رہے ہیں اور ہاتھ معافی مانگنے کے انداز میں بندھے ہوئے تھے نہ جانے رات کے کس پہر میں وہ فوت ہوگئے۔
اس پلاٹ میں کوئی نہیں جاتا وہاں سے مختلف قسم کی ڈرائونی آوازیں آتی ہیں جس دولت کو انہوں نے اکٹھا کیا اس کی بنیاد پر ان کے بچے ہر وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ گھر میں سکون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر بھائی دوسرے بھائی کو مارنے پر تلا ہوا ہے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا۔ بے برکتی ہے‘ گھر کا ہرفرد انتہائی پریشان ہے اور عجیب قسم کے خوف میں مبتلا ہے اور ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ جب رزق مشکوک ہوجاتا ہے تو پھر برکت اٹھ جاتی ہے اور اس کا اثر آنے والی نسلوں تک چلتا ہے۔ اللہ ہمیں رزق حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔
والدہ کی بددعائیں
حافظ محمداسلم پلمبر ہیں اور ان کا مختلف گھروں میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میرا ذاتی تجربہ ہے جس شخص کو والد یا والدہ بددعا دیتے ہیں وہ کبھی بھی سکھی نہیں رہتا۔ ہمیشہ ہی پریشان حال رہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک گنڈیری بیچنے والے کے گھر پانی کی ٹینکی ٹھیک کرنے کیلئے گیا والد کی دکان چوک عباسیہ پر ہے جبکہ بیٹے کی دکان محبت پور بازار میں ہے جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو معلوم ہوا کہ بیٹے نے پانی کا کنکشن بند کردیا ہے اور گھر میں دو تین دن سے پانی نہیں ہے اور اکثر پیچھے سے پانی بند کردیتا ہے اور والدہ کو گالیاں دیتا ہے اور حتیٰ کہ والدہ کو پینے کا پانی تک نہیں دیتا۔ والدہ بہت زیادہ ناراض تھی اور اتنی زیادہ بددعائیں دے رہی تھی اور اس کی آواز میں اتنا درد تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ جو کچھ یہ کہہ رہی ہے ابھی پورا ہوجائے گا۔ حافظ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے والدہ کو دبے دبے الفاظ میں کہا کہ بددعا نہ دیں پھر بھی آپ کا بیٹا ہے تو والدہ چپ کرگئیں۔ چھوٹی سی پانی کی ٹینکی رکھنی تھی‘ کام ختم کرکے حافظ صاحب گھرآگئے۔ میں سوچنے لگا کہ کتنا بدبخت بیٹا ہے کہ والد زندہ حیات اور والدہ بھی زندہ حیات ہے اور بیٹا جنت سے محروم ہے۔ خوش قسمتی کو قریب نہیں آنے دیتا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ ہمیشہ خواہش آرزو‘ حسرت وتمنا رہی کہ کاش میری والدہ زندہ ہوتیں میں ان کی خدمت کرتا۔ کیا یہ بیٹا اپنی زندگی میں خوش رہ سکے گا۔ یقینا نہیں کیا ہم خود کو اس سعادت کو کھو نہیں رہے۔ پھر وقت ہاتھ نہیں آئے گا۔
مقدمہ باز شخص کا انجام
ایک شخص فوت ہوگیا تو ہمسائیوں نے سکھ کا سانس لیا۔ اس کی عادت تھی کہ بات بات پر مقدمہ کردیتا تھا۔ روزانہ عدالت میں آتا تھا۔ بارش‘ طوفان‘ آندھی مگر وہ عدالت میں موجود ہوتا تھا اور حتیٰ کہ چھٹی والے دن بھی عدالت میں آکر وکیلوں کی خالی کرسیوںپر بیٹھا رہتا تھا اور بلاوجہ لوگوں کو جھوٹے مقدمات بنا کر عدالتوں میں گھسیٹا تھا۔ علاقہ میں مقدمہ باز مشہور تھا جب فوت ہوا اور قبر کھودنے کا مرحلہ آیا تو زمین نے جگہ نہ دی۔ قبر کھودنے والے تھک گئے نیچے سے پتھریلی زمین نکل آئی۔ گورکن کا جسم تھکن سے ٹوٹ گیا اور جو میت لانے والے تھے ان کا براحال تھا اور ہر کوئی جلدی جلدی اس میت سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ فوراً ہی میت کو قبر میں لٹایا گیا اور قبر بند کردی گئی۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ایک شخص نے ساری زندگی مخلوق خدا کو مقدموں میں الجھائے رکھا۔ حق ناحق شہادتیں دیں۔ جھوٹے مقدمات بنائے مگر آخرت کو بھول گیا۔ اس وقت قبر یاد نہ رکھی کہ زمین جگہ نہیں دے گی۔ کاغذوں سے بھرا تھیلا گھر پڑا جو عدالتوں میں لے جاتا تھا۔ مگر اعمال کا تھیلا بالکل خالی ہے۔ موت انتہائی قریب ہے۔ کیا ہمارے تھیلا میں اعمال ہیں یا صرف کاغذوں سے بھرا پڑا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں